Sunday, May 22, 2022

Full History of Yasin Malik in Urdu ( Why Indian Government Punished Yasin Malik ? )

Yasin Malik Kashmir

 یاسین ملک

یاسین ملک (پیدائش: 1963ء) جموں و کشمیر کے حریت پسند رہنما اور کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔

یاسین ملک جموں کشمیر میں برسر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک طلبہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ انھوں نے 1987 کے انتخابات میں امیرا کدل سے مسلم یونائٹڈ فرنٹ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کی حمایت کی۔ کشمیر کے علیحدگی پسند یہ کہتے ہیں کہ نہ یوسف شاہ کر ہرایا جاتا،نہ وہ پاکستان جا کر سید صلاح الدین بنتے اور نہ ہی ان کے حامی وہاں جا کر عسکری تربیت لیتے اور نہ ہی انڈیا میں مسلح جدوجہد کا دور شروع ہوتا۔ اس میں جے کے ایل ایف کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یاسین ملک نے جے کے ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور ان کا گروپ جسے چار رہنماؤں حامد شیخ، اشفاق وانی، جاوید احمد میر اور یاسین ملک کے نام کے پہلے حروف کو جوڑ کر حاجی کہا گیا وہ شروع میں بہت مقبول رہا لیکن رفتہ رفتہ اس کا زور ختم ہوتا رہا یہاں تک کہ اس جماعت کے دو گروپ بن گئے۔ یاسین ملک کی کئی بار گرفتاریاں ہوئیں اور ہر بار ان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی۔ جب سنہ 1994 میں جب انہیں حراست میں لیا گیا تو انھوں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تشدد کے بجائے امن کے راستے کی پیروی شروع کردی اور گاندھینبن گئے اور بات چیت کے ذریعے جس میں انڈیا پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی بھی شمولیت ہو کی حمایت کرنے لگے۔نہ 1999 اور پھر سنہ 2002 میں انھیں گرفتار کیا گیا جس دوران تقریبا ایک سال تک وہ جیل میں رہے۔ اس کے بعد انھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جبکہ ان کی پارٹی نے 2007 میں سفر آزادیکے نام سے لوگوں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں انڈیا کی حکومت کے مطابق انھوں نے لوگوں میں حکومت کے خلاف تاثرات پیدا کیے۔ یاسین ملک نے 2013 میں پاکستان کی کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے ساتھ سٹیج شیئر کیا جس پر انھیں انڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ حافظ سعید کو انڈیا ممبئی بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ کہتا ہے۔ یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد ان کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یاسین ملک انڈیا کے ریرانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما ہیں وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین ہیں۔ وہ تین اپریل 1963 کو کشمیر میں پیدا ہوئے۔ اوائل نوجوانی سے ہی وہ کشمیر کو الگ اور آزاد حیثیت دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ انہوں نے مسلح جدوجہد بھی کی اور بعدازاں سیاسی جدوجہد شروع کی جس کی وجہ سے وہ شروع سے ہی گرفتاریوں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ 2009 میں انہوں نے پاکستانی آرٹسٹ مشال ملک سے شادی کی جن سے ان کی ملاقات چند سال قبل مشرف دور میں اس وقت ہوئی تھی جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی خوشگواری پیدا ہو گئی تھی اور دونوں اطراف سے وفود ایک دوسرے کے ملک کے دورے کر رہے تھے، ان ہی دنوں یاسین ملک پاکستان آئے تھے اور ایک تقریب میں مشال ملک سے ملاقت ہوئی۔ ان کی ایک بیٹی رضیہ سلطانہ بھی ہے۔ آخری بار یاسین ملک کو 22 فروری 2019 کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور سات مارچ کو انہیں جموں کوٹ بلوال جیل منتقل کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کو تہاڑ جیل منتقل کیا گیا۔ جہاں سے ان کی صحت بگڑنے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ پانچ اگست کو جب انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس وقت بھی یاسین ملک جیل میں تھے

سیاسی جماعتیں

آل پاٹیز حریت کانفرنسآل جموں و کشمیر مسلم کانفرنسJammu and Kashmir Democratic Freedom PartyJammu Kashmir Democratic Liberation PartyUnited Kashmir People's National Party 

علیحدگی پسند تنظیمیں

جموں کشمیر لبریشن فرنٹجموں کشمیر لبریشن فرنٹتحریک حریتحزب المجاہدینلشکر طیبہجیش محمدحرکت المجاہدینحرکت المجاہدین

علیحدگی پسند

افضل گوروAmanullah Khan (JKLF)Ashiq Hussain Faktooآسیہ اندرابیایوب ٹھاکرAbdullah Yusuf Azzamبرہان مظفر وانیفاروق احمد ڈارحافظ محمد سعیدہاشم قریشیمقبول بٹمحمد مسعود اظہرمسرت عالممیر واعظ عمر فاروقمحمد عباس انصاریمحمد احسان ڈارسید صلاح الدینشیخ عبد العزیزسید علی گیلانییاسین ملک 

تاریخ

معاہدہ امرتسر (1846ء)مسئلہ کشمیرپاک بھارت جنگ 1947Amarnath land transfer controversy2008 Kashmir unrest2010 Kashmir unrestSopore massacreRamban firing incident2016ء کشمیر احتجاجات

قوم پرستی

کشمیریات

انتخابات

Jammu and Kashmir Legislative Assembly election, 2008Jammu and Kashmir Legislative Assembly election, 2014

بھارت: عدالت نے کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو قصوروار قرار دے دیا
کشمیر کے معروف علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو شدت پسندی میں معاونت سے متعلق ایک کیس میں قصوروار قرار دے دیا گیا ہے۔ کشمیر میں انہیں بھارت مخالف مضبوط مزاحمت کی علامت کے طور دیکھا جاتا ہے۔
ھارتی دارالحکومت دہلی میں واقع قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے)  کی ایک خصوصی عدالت نے 19 مئی جمعرات کے روز کشمیر کے معروف علیحدگی پسند رہنما اور  جے کے ایل ایف کے بانی یاسین ملک کو شدت پسندی کی معاونت سے متعلق ایک کیس میں قصوروار قرار دیا۔
 عدالت نے ابھی سزا کا تعین نہیں کیا ہے اور ایجنسی کو ہدایت کی ہے کہ یاسین ملک کی دولت کا بھی تخمینہ پیش کیا جائے تاکہ سزا سناتے وقت جرمانے کی رقم پر بھی غور کیا جا سکے۔ سزا کا تعین 25 مئی کے روز ہونے والی اگلی سماعت کے دوران کیا جائے گا۔
بھارتی حکومت نے دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے ہی دہشت گردی سمیت متعدد الزامات کے تحت یاسین ملک کو گرفتار کر لیا تھا، جو گزشتہ کئی برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ بھارت نے ان پر ملک سے جنگ چھیڑنے، دہشت گردی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں سمیت متعدد سخت دفعات کے تحت مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ 
 لیکن گرفتاری کے بعد سے ہی اہل خانہ سمیت کسی کو بھی ان سے اب تک ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، اس لیے کسی کو یہ تک نہیں معلوم ہے کہ ان کے کیس کی آخر پیروی کون کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی قید اور مقدمے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہا ہے۔
اقبال جرم کا معاملہ کیا ہے؟
چند روز قبل ہی بھارتی میڈیا کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک نے عدالت کے سامنے ’’اپنے اوپر عائد الزامات کا اعتراف کر لیا ہے۔‘‘ ان کو قصور وار ٹھہرانے کی یہ خبر اقبال جرم والی خبر کے محض چند روز بعد آئی ہے۔
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو نے جب بھارت کے زیر انتظام  کشمیر کے ایک سینیئر صحافی سے بات کی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’یاسین ملک نے اقبال جرم نہیں کیا بلکہ بھارتی عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
نہوں نے بتایا کہ ان کی پاکستانی نژاد اہلیہ مشعل حسین نے سوشل میڈیا پر بھی اس کی وضاحت کی تھی اور ان کا کہنا تھا، ’’یاسین ملک کو بھارتی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں ہے اسی لیے انہوں نے عدالت سے کہہ دیا کہ وہ اپنے خلاف الزامات کا دفاع نہیں کرنا چاہتے اور اسی کو اقبال جرم کہا جا رہا تھا۔‘‘
کشمیر بار کونسل کے ایک سینیئر رکن نے بھی ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے خیال میں یاسین ملک کو انصاف کی توقع نہیں تھی اور چونکہ ان سے کسی کو ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی اس لیے افسردگی اور مایوسی میں اس طرح کا فیصلہ کیا ہو گا کہ دفاع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا، ’’اب بھارتی عدالتوں کے فیصلے کشمیریوں کو انصاف دلانے کے بجائے، حکومت کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہم کشمیری عدالتوں میں اب ہر روز اسی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔‘‘
یاسین ملک کا معاملہ برطانوی پارلیمان میں
گزشتہ منگل کے روز ہی برطانوی پارلیمان کے ایوان بالا میں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق سوالات و جوابات کے دوران علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے بارے میں خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
 اس موقع پر پاکستانی نژاد لبرل ڈیموکریٹ لارڈ قربان حسین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے مقدمے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ آخر اس حوالے سے برطانوی حکومت کیا کر رہی ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے لارڈ طارق احمد نے کہا،جہاں تک مسٹر یاسین ملک کے کیس کا مخصوص معاملہ ہے، تو ہم اس کی بہت قریب سے نگرانی کر رہے ہیں۔ ہم نے نوٹ کیا ہے کہ ان پر بھارتی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس لیے ہم بھارت کے آزاد عدالتی عمل میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے۔ تاہم اپنی تمام مصروفیات میں، سبھی ممالک پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کسی بھی قیدی کے ساتھ سلوک کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام کریں۔‘‘
لارڈ قربان حسین کا کہنا تھا کہ یاسین ملک کے خلاف الزامات جعلی‘‘ ہیں اور کشمیریوں کو اس بات کا شک ہے کہ بھارتی حکومت ان سے کسی بھی طرح چھٹکارا‘‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ 
لارڈ حسین کا کہنا تھا،ان کی جان کو حقیقی خطرہ لاحق ہے۔‘‘

No comments:

Post a Comment